جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا=کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت=اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی=اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
ہر زخمِ جگر داورِ محشر سے ہمارا=انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو=آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا
صد موسمِ گُل ہم کو تہِ بال ہی گزرے=مقدور نہ دیکھا کبھی بے بال و پری کا
اس رنگ سے چمکے ہے پلک پر کہ کہے تو=ٹکرا ہے ترا اشک، عقیقِ جگری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام=آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
ٹک میر جگرِ سوختہ کی جلد خبر لے=کیا یار بھروسہ ہے چراغِ سحری کا
2 تبصرے:
لے سانس بھی اآہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
حضرت عمر کے فضائل و مناقب
تبصرہ ارسال کریں
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔
Post a Comment