آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے=اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
بامِ مینا سے مہتاب اترے=دستِ ساقی میں آفتاب آئے
ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو=سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر=تیری مہر و وفا کے باب آئے
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب=آج تم یاد بے حساب آئے
نہ گئی تیرے غم کی سرداری=دل میں یوں روز انقلاب آئے
جل اٹھے بزم غیر کے در و بام=جب بھی ہم خانماں خراب آئے
اس طرح اپنی خامشی گونجی=گویا ہر سمت سے جواب آئے
فیض تھی راہ سر بسر منزل=ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے